کروناوائرس جو چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہواجس نے پورے شہر کو اپنی چپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ یہیں پر نہ تھما بلکہ اس نے اپنا پیر پورے چین میں پسارے جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں کی ہی تعداد میں متاثر بھی ہوئے۔اسی وائر س نے اپنا اثر دنیا کے دیگر ممالک میں دکھانا شروع کردیا جس سے تقریباکم وبیش ۱۴۰؍ سے زائدممالک اس موزی اور مہلک وائرس سے لڑنے اور اس کو ختم کرنے کے طریقے تلاش رہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں۔اس وائرس سے متاثر ہونے والا ملک ایران تیسرے نمبر پر ہے جہاں پر اس وائرس نے کی افراد کو موت کی نیند سلادیااور بہت سے کئی ایسےافراد ہیں جو اس وائرس سے زندگی کی لڑائی لڑرہے ہیں۔موصولہ خبروں کے مطابق ایران کے ادارہ صحت نے اس کا علاج کچھ حد تک تلاش کرلیا ہے اور انھوں نے تقریباچار ہزار افراد کے صحتیاب ہونے کا اعلان بھی کیا جبکہ ایران میں اس وائرس کے متاثرین کی تعداد تقریبا بارہ ہزار ہے جبکہ چھ سو سے۔زائد لقمہ اجل بن چکےہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ ہندوستان سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں مسلسل ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ عوام کے اجتماعات کو روکتے ہوئے اس وائرس پرقابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ ہندوستان میں یہ وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیلا ہے اور صرف چند ہی مریضوں میں اس وائرس کے ہونے کی توثیق ہوئی ہے لیکن حکومتوں کی جانب سے جو فیصلے اورجس تیزی سے فیصلے کئے جا رہے ہیں ان کے نتیجہ میں بھی عوام میں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہونے لگی ہے ۔ جہاں تک اس کے علاج یا اس سے نمٹنے کے اقدامات کا سوال ہے اس تعلق سے ابھی کوئی قطعیت سے لائحہ عمل تیار نہیںہوسکا ہے لیکن عوام میں اس تعلق سے احتیاط سب سے زیادہ اہم اور ضروری عنصر ہوگیا ہے ۔ جتنی احتیاط کی جائے گی ا تنا ہی اس خطرناک اور مہلک وائرس سے بچنے میںمدد مل سکتی ہے ۔اس بیماری نے مختصر رفتار میں اپنے پھیلاؤ کے سفر کو جاری رکھا ہوا ہے لیکن اس کی دہشت نے انسانیت کو بیدار کردیا ہے اب ہر کوئی صاف صفائی پر خصوصی توجہ دے رہا ہے چھینکنے اور کھانسنے میں بھی آداب کو ملحوظ رکھا جارہا ہے۔
ہندوستان ایک کثیرالمذاہب ملک ہے تو ظاہر ہے کہ اس ملک میں توہم پرستوں کی بھی کمی نہیں ہمارے ملک میں کچھ مخصوص آبادی کے لوگ ہیں جو اس وائرس کو مات دینے کے لیے گوبر اور گائے کے پیشاب کو استعمال کر رہے ہیں تو کچھ محلوں میں قرآن کے اندر بال نکلنے کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جس پر اس بال کو دھو کر پینے سے شفا ہونے کی بات کہی جارہی ہے جس کی کہیں کوئی سند اور ثبوت نہیں ہے کچھ نے اس بیماری کے لیے دعائیں بھی تدوین کردی اور اپنی دکانوں کو چمکانے کا کام بھی شروع کردیا ہے ایسی ایسی باتوں کو فروغ دیا جارہا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں گیا تھا کرونا وائرس آنے کے بعد ماسک، رومال، کپڑے کی پٹی، دستی، صابن، کریم، جیسے کاروباریوں کی بھی چاندی ہوگئی کل تک دس روپے میں فروخت ہونے والا ماسک آج پچاس روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ لوگوں کو اس سے بہت زیادہ بچنے اور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، خاص کر آجکل جب کہ ہر انسان کے ذہن و دماغ میں کروناوائرس گردش کر رہا ہے – لوگوں میں اس کا اتنا خوف بیٹھ گیا ہے کہ ہر آدمی جس کو دو تین بار چھینکیں آجائے، تھوڑا سا بخار محسوس ہو یا سر درد ہو تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو نے لگتا ہے۔
اگر بات شہر ممبئی کی جائے تو کچھ یہی حال ممبئی کی تفریح گاہوں کابھی ہےجہاں عام طورپرچھٹی یااتوارکےروزکافیبھیڑدیکھائی پڑتی ہے لیکن یہ تفریح گاہیں بھی کروناوائرس کےخوف سے خالی دیکھائی پڑی رہی ہیں،شہرکےسیاحتی مقامات جیسے گیٹ وےآف انڈیا،نریمان پوائنٹ،چوپاٹی،جوہوچوپاٹی اوردیگرمقامات پرایسالگ رہاہےکہ جیسے شہرمیں کرفیونافذہوگیاہو۔گیٹ وےآف انڈیاسے ایک بڑی تعدادمیں ممبئی شہر کےسیرکے لئے آئے بیرونی شہر وریاست کے افراد کشتیوں کاسفر کرتے ہیں لیکن کشتیاں ساحل سمندرکے پاس کھڑی دیکھلائی پڑی اور سیاح غائب۔